جس رقم پر سال نہیں گزرا اس کی زکات؟

 

عنوان:جس رقم پر سال نہیں گزرا اس کی زکات؟

سوال:

میں تین رمضان کو ہر سال اپنی زکاة کا حساب کرتاہوں ،الحمد للہ، میرے پاس پورے سال پانچ لاکھ کی ملکیت رہتی ہے، رمضان سے دس مہینے پہلے میری نوکرلگی۔ سوال یہ ہے کہ زکاة کے لیے سال گذارنا ضروری ہے اور پھر ہر مہینے کی تنخواہ کو ایک مہینے بعد ایک سال ہوگا تو پھر زکاة کیسے نکالیں؟ اور کس کس پیسہ پر زکاة دینی ہوگی ؟ جزاک اللہ خیرا۔

جواب

بسم الله الرحمن الرحيم

 

 وجوب زکوة کے لیے جو سال گذرنا شرط ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے پاس کم از کم نصاب کے بقدر مال زکوة سال کے شروع میں اور سال کے اخیر میں پایا جائے اور درمیان سال میں اس کا کچھ حصہ، مثلاً دو چار روپے باقی رہے، مکمل طور پر نصاب ختم نہ ہوجائے ، پس اگر سال کے کسی مہینہ یا تاریخ میں کچھ بھی نصاب باقی نہیں رہا، یعنی: ایک دو روپے بھی باقی نہیں رہے تو سال کا حساب ختم ہوجائے گا اور دوبارہ نصاب مکمل ہونے کے بعد سال کا حساب شروع ہوگااور نصاب یا اس کا کچھ حصہ باقی رہتے ہوئے درمیان سال میں موجود نصاب کی جنس کا جو نیا مال آئے گا ، اس پر الگ سے سال کا حساب نہیں ہوگا؛ بلکہ وہ پہلے موجود نصاب کے ساتھ شامل ہوجائے گا اور اُس کا سال مکمل ہونے پر اِس نئے مال پر بھی حکماً سال مکمل شمار کیا جائے گا ، پس جس تاریخ میں آپ کی زکوة کا سال مکمل ہوتا ہے (مثلاً ۳/ رمضان)، اس تاریخ میں آپ کے پاس سونا، چاندی، کرنسی اور مال تجارت میں سے جو کچھ موجود ہو، اس کی کل مالیت کا چالیسواں حصہ زکوة میں دیدیا کریں اور جو مال اس تاریخ سے پہلے آپ یا آپ کے بچوں وغیرہ کی ضروریات میں خرچ ہوکر ختم ہوگیا، زکوة میں اس کا حساب لگانے کی ضرورت نہیں۔ وشرط کمال النصاب … في طرفي الحول فی الابتداء للانعقاد وفی الانتھاء للوجوب فلا یضر نقصانہ بینھما، فلو ھلک کلہ بطل الحول (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب زکاة المال، ۳: ۲۳۳، ۲۳۴، ط: مکتبة )، قولہ:”فلو ھلک کلہ“: أي: في أثناء الحول بطل الحول، حتی لو استفاد فیہ غیرہ استأنف لہ حولاً جدیداً (رد المحتار)،ونقصان النصاب فی الحول لا یضر إن کمل في طرفیہ، أي: إذا کان النصاب کاملاً فی ابتداء الحول وانتھائہ فنقصانہ فیما بین ذلک لا یسقط الزکاة،…… إلا أنہ لا بد من بقاء شیٴ من النصاب الذي انعقد علیہ الحول لیضم المستفاد إلیہ؛ لأن ھلاک الکل یبطل انعقاد الحول؛ إذ لا یمکن اعتبارہ بدون المال (تبیین الحقائق۱: ۲۸۰، ط: المکتبة الإمدادیة، ملتان، باکستان)، قولہ:”إلاإلا أنہ لا بد من

واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء مظہر العلوم طالب دعا مولوی عبدالستارحسنی صاحب

Post a Comment

Previous Post Next Post